الجواب وباللّٰہ التوفیق:غالباً مقتدیوں نے ان کے عقائد کی وجہ سے اعتراض کیا ہوگا جو شیعہ ضروریات دین کے منکر ہیں، وہ مسلمان ہی نہیں اور ایشیاء میں ایسے شیعوں کا وجود خال خال ہے جن کو مسلمان نہ کہا جائے، فقہاء نے تصریح کی ہے جو قذف عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کے مرتکب نہیں اور الوہیت علی کے قائل نہیں اور ضروریات دین کے منکر نہیں وہ مسلمان ہیں۔ فقہاء نے ان کو صرف بدعتی لکھا ہے؛ اس لئے مقتدیوں کو بلا وجہ اعتراض نہیں کرنا چاہئے، بہر حال ان کے گھر کا کھانا جو کہ اپنی خوشی سے دیتے ہیں، تو امام ومؤذن کو لینا جائز ہوگا اور ان کی دی ہوئی چیزوں کو مسجد میں استعمال کرنا بھی جائز ہوگا(۱)، وہ بھی قربت اور کار خیر سمجھ کر دیتے ہیں تو اس میں شبہ نہ کیا جائے؛ بلکہ قربت اور کار خیر سمجھ کر کافر بھی مسجد میں کچھ دیدے، تو اس کا لینا اور استعمال کرنا بھی جائز ہوگا؛ البتہ ایسا اختلاط جو اپنی دینداری پر اثر انداز ہو اس سے احتراز کرنا ضروری ہے۔(۱)
(۱) وکل من کان من قبلتنا لا یکفر بہا حتی الخوارج الذین یستحلون دماء نا …وأموالنا وسب الرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وینکرون صفاتہ تعالیٰ وجواز رویتہ لکونہ عن تاویل وشبہۃ قال الشامي: تحت قولہ حتی الخوارج أراد بہم من خرج عن معتقد أہل الحق لا خصوص الفرقۃ الذین خرجوا عن الإمام علي رضي اللّٰہ عنہ وکفروہ فیشمل المعتزلۃ والشیعۃ وغیرہم۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأمامۃ، مطلب: البدعۃ خمسۃ أقسام‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص277