58 views
ایک نئی مسجد کی تعمیر کے لئے مختلف مقامات کے مختلف لوگوں سے چندہ کیا گیا کہ زمین خریدی جائے گی اور مسجد تعمیر کی جائے گی اتفاقاً معاملہ ایسا ہوگیا کہ جس زمین پر مسجد تعمیر کرنا طیے پایا تھا اس زمین کے مالک نے زمین وقف کرنے اور بیچنے سے انکار کر دیا تو چندہ کرنے والے اشخاص نے عارضی طور پر ایک مکان کے تہہ خانے میں عبادت خانہ بنانے کا مشورہ کیا ہے تو مذکورہ چندہ سے متعلق ایک دو باتیں پوچھنی تھیں کہ مذکورہ چندے کی رقم کو دوسری مسجد میں استعمال کر سکتے ہیں؟ ۔
یا پھر مذکورہ مکان کے تہہ خانے میں بنائے جانے والے عبادتخانہ(عارضی مسجد) میں استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں ؟
یہ واضح رہے کہ چندے کے ان پیسوں کو دوسرے مصرف میں خرچ کرنے کے لیے تمام چندہ دہندگان سے اجازت لینا محال ہے....
asked Feb 25 in مساجد و مدارس by munawwarbhatabari

1 Answer

Ref. No.2846/45-4488

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جس جگہ مسجد بنانےکےلئے اورزمین خریدنے کےلئےچندہ   جمع کیاگیا،اب اگراس جگہ مسجد بناناناممکن  ہو تو اس  رقم  کو کسی دوسری جگہ شرعی  مسجد بنانے میں استعمال کرنے کی اجازت ہے۔البتہ تہہ خانےکی   عارضی مسجدمیں اس  رقم  کولگاناجائزنہیں ہوگا۔

"فإن شرائط الواقف معتبرة إذا لم تخالف الشرع وهو مالك، فله أن يجعل ماله حيث شاء ما لم يكن معصية وله أن يخص صنفا من الفقراء ولو كان الوضع في كلهم قربة."(شامی،کتاب الوقف ،ج:4 ص:343 ط:سعید)

"(اتحد الواقف والجهة وقل مرسوم بعض الموقوف عليه) بسبب خراب وقف أحدهما (جاز للحاكم أن يصرف من فاضل الوقف الآخر عليه) لأنهما حينئذ كشيء واحد.   (وإن اختلف أحدهما) بأن بنى رجلان مسجدين أو رجل مسجدًا ومدرسة ووقف عليهما أوقافا (لا) يجوز له ذلك."

شامی ، كتاب الوقف ج:4،ص:360،ط: سعيد)

"على أنهم صرحوا بأن مراعاة غرض الواقفين واجبة." (شامی، كتاب الوقف ج:4،ص:445،ط:سعيد)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

answered Mar 2 by Darul Ifta
...